قومی معیشت کی مسلسل افزائش کو یقینی بنانے کے لیے اہم اداروں کی بد نیتی کو ختم کیا جائے:اکرام سہگل

٭ نیب نے کسی بڑی کامیابی کے بغیر وائٹ کالر کرائمز کو ہدف بنایا،کیونکہ اس کے پاس مہارت کی کمی اور عزم کا فقدان ہے
٭ پاکستان کیوں FATF کی بلیک/ گرے لسٹ میں ہے؟جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ یقینا ایک و جہ ہے۔
٭ عمران خان کی پی ٹی آئی کرپشن سے لڑنے اور معاشرے کے محروم طبقات کو انصاف دینے کے لیے قائم کی گئی تھی مگر علیم خان جیسے لوگ آج میڈیا چینلز کے مالک ہیں۔

کراچی18 مارچ،2022: پاتھ فائنڈر گروپ کے چیئرمین اکرام سہگل نے کہا ہے کہ معیشت کی افزائش اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ادارے اپنا کام کرنے سے کترا رہے ہیں۔انھوں نے سوال کیا کہ کیا مالیاتی اداروں میں کسی بھی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟پاکستان برسوں سے فیٹف کی بلیک/ گرے لسٹ پر ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ غفلت برتنے والوں سے پوچھا نہیں گیا۔جعلی اکاؤنٹس اور منی لاندرنگ یقینا ایک وجہ ہے جس کے باعث پاکستان ابھی تک اس لسٹ میں شامل ہے۔جو مغربی ممالک ہم پر فیٹف کا اطلاق کر رہے ہیں وہ بھی مکار ہیں،وہ اپنے اکاؤنٹس میں آنے والی مشکوک رقوم کو دوسرے طریقے سے دیکھتے ہیں۔

اکرام سہگل نے بات ‘ ‘Growth in testing times-Reshaping the future of Pakistan کے عنوان سےCEO سمٹ ایشیا سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ان کی تقریر کا عنوان ‘Pakistan at Crossroad-A way forward’ تھا۔انھوں نے کہا کہ ہمارا بینکنگ نظام بھرپور منافع کماتا ہے مگر یہ ہمارے سسٹم کی بد نیتی اور ریا کاری پر مبنی طور طریقوں کا حصہ ہے۔انھوں نے سوال کیا” یہ کیسے ممکن ہے کہ بینک حکام کی ملی بھگت کے بغیر جعلی اکاؤنٹ کھل جائیں؟اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس سلسلے کو روکنے اور بینکوں اور جعلی اکاؤنٹس میں رقم چھپانے کے لیے ملی بھگت کرنے والے بینکاروں کے خلاف کیا کارروائی کی،جسے بعد میں ٹیکس بچانے اور ملک سے باہر لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اداروں میں بد نیتی موروثی ہے جو بیان کردہ اخلاقی ضابطوں اور اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ہماری صورت حال بہت سنگین ہے اور بیشتر پاکستانی اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ریا کاری کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔یہ بد نیتی پھر خاندانوں اور اسکولوں میں سرایت کرتی ہے۔بچے ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں جہاں ان کے بڑے اپنے فعل میں اپنے قول کی کھلم کھلا نفی کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ صورت حال پھر ریاست کے اعلیٰ ترین طبقات میں سرایت کرتی ہے،جہاں سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے اپنے قول پر شاذ و نادر عمل کرنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ لوگ اخلاقی معیارات کی عدم تعمیل کے مکارانہ طرز عمل کی پردہ پوشی کے لیے جھوٹ بولنے کی عادت اپنا لیتے ہیں۔پاکستان میں جھوٹ بولنا ایک عام روش بن چکی ہے اور لوگ ایسے معاملات میں بھی جھوٹ بولتے ہیں جہاں اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔

اکرام سہگل نے کہا کہ بڑے پیمانے پر ریا کاری ہماری سیاست کی بنیاد ہے۔اس ریاکاری میں پارلیمنٹ، حکومت اور اس کے ادارے،سب حصہ دار ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عدم اعتماد کے ووٹ سے پہلے ارکان پارلیمنٹ کے درمیان رقم کے لین دین سے معاملات کیسے طے پا سکتے تھے۔سندھ ہاؤس اسلام آباد میں رکے ہوئے پی ٹی آئی کے منحرفین کی طرف دیکھئے،کیا ان پر آئین کے آرٹیکل63 کا اطلاق نہیں ہوتا؟عمران خان نے کرپشن سے لڑنے،نظام کو شفاف بنانے اور معاشرے کے محروم طبقات کو انصاف دینے کی کوشش کی مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟جب انھوں نے اپنے گھر کی صفائی شروع کی تو علیم خان جیسے بڑے لوگ نیب کی فہرست میں سب سے اوپر تھے۔انھوں نے سوال کیا جب نیب ان کے خلاف تحقیقات کر رہا تھا تو انھیں ایک ٹی وی چینل حاصل کرنے کی اجازت کیسے مل گئی؟