اسلام آباد: معاشی بحران اور انتہا پسندی جیسے ہمارے بڑے مسائل کے تدارک کے لیے پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ضروریات سے ہم آہنگ تعلیمی حکمت عملی وضع کی جا سکے جس کے زیر اثر تعلیم کا حق سب کو میسر ہو سکے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام کمرشل ازم سمیت سنگین مسائل سے دوچار ہے اور اپنے پائیدار اہداف کے حصول کے لیے تعلیمی ایمرجنسی وقت کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار ممتاز ملکی و غیر ملکی ماہرین تعلیم اور صحت نے ایکاعلی سطحی پینل ڈسکشن کے دوران کیا۔
پاکستان میں تعلیم کے فروغ اور صحت عامہ کی بہتری کے حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر پاکستان پویلین میں “ارتقاٸے تعلیم وصحت عامہ” کے موضوع پر منعقد کیے گٸے اس اہم مباحثے کا اہتمام کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز نے سوئس ایشین چیمبر آف کامرس کے تعاون سے کیا تھا۔
مباحثے کے شرکا میں ڈاکٹر ہما بقائی، ماہر تعلیم و سینئر وائس چیئرپرسن کے سی ایف آر، ڈاکٹر لنڈا زنگ ویل، پروفیسر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ڈاکٹر مارک سیگل، سی ای او سیگل ایسوسی ایٹس، اور جناب علی شاہ، سی ای او آئی پیتھ شامل تھے، جبکہ سینئر صحافی فیصل عزیز خان نے سیشن کی نظامت کے فراٸض سر انجام دیٸے۔
مباحثےکا آغاز کرتے ہوئے فیصل عزیز خان نے پاکستان میں تعلیمی نظام اور صحت عامہ کی سہولیات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا۔ حکومت اور سرکاری اداروں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کا اشتراک کرتے ہوئے فیصل عزیز نے ملک میں تعلیمی صورتحال کو ابتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لیے عالمی درجہ بندی میں نائیجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ اسی عمر لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد، تقریباً 59 فیصد مختلف وجوہات کی بناء پر اسکول نہیں جاتیں۔ فیصل عزیز نے کہا کہ ملک میں تعلیمی نظام کی باگ ڈور پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جو اس مقدس مشن کو منافع بخش کاروبار بنا رہا ہے۔
پاکستان میں صحت عامہ کی سہولیات کے بارے میں بات کرتے ہوئے فیصل عزیز نے کہا کہ ملک میں 70 فیصد طبی سہولیات پرائیویٹ سیکٹر فراہم کر رہا ہے اور اس حوالے سے پبلک سیکٹر شدید دباؤ کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاج بنیادی انسانی ضروریات میں سے ایک ہے لیکن یہ ایک منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر ہما بقائی، سینئر وائس چیئرپرسن کے سی ایف آر نے پاکستان کے بگڑتے ہوئے تعلیمی نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری نے پاکستان میں تعلیم کو تباہ کر دیا ہے کیونکہ ہم نے آہستہ آہستہ تعلیم کو حق کے بجائے ایک استحقاق میں تبدیل کر دیا ہے، اور مزید یہ کہ ہم نے نجی شعبے کو کیسے اجازت دی کہ ہمارے پبلک سیکٹر کو مکمل نظر انداز کرتے ہوٸے تعلیمی ضروریات پوری کرے۔
“ہم دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہیں اور ہمیں اپنے نوجوانوں کو معیاری مہارت پر مبنی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو کثیر الجہتی تعلیمی حکمت عملی کی ضرورت ہے اور ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہم اس طرح کے محدود انداز کو جاری رکھ سکیں،‘‘ انہوں نے کہا۔
پاکستان کی کم شرح خواندگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو بھی اپنا نام پڑھ یا لکھ سکتا تھا اسے پڑھا لکھا سمجھا جاتا تھا لیکن یہ خواندگی بالکل نہیں تھی۔ ہما نے تعلیمی نظام کی مخدوش صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کو بنیادی حق کی بجائے تجارتی پیداوار بنا دیا گیا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے تو تعلیمی ایمرجنسی سب سے آگے ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر لنڈا زنگ ویل نے شعبہ صحت کے انتظام کار کے حوالے سے اپنے تجربات شیئر کیے اور صحت کے اداروں کو درپیش مسائل پر قابو پانے کے لیے استعمال کی جانے والی جدید ٹیکنالوجیز پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر زنگ ویل نے حاضرین کو بتایا کہ دنیا صحت کی دیکھ بھال میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی طرف بڑھ رہی ہے جو کہ مستقبل قریب میں صحت کی خدمات میں انقلاب برپا کرے گی۔
مارک سیگل، جو ایک بین الاقوامی یونیورسٹی میں سپلائی چین مینجمنٹ بھی پڑھاتے ہیں، نے مشورہ دیا کہ نوجوان گریجویٹس کو کاروباری مہارتیں بھی فراہم کی جانی چاہئیں تاکہ وہ دنیا بھر کی بڑھتی ہوئی مارکیٹوں میں مقابلہ کر سکیں۔
علی شاہ، سی ای او آٸی پاتھ نے جدید دور کے ہیلتھ کیئر سسٹم پر روشنی ڈالی جو صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کو مخصوص مریضوں کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی کے قابل بناتا ہے۔ انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ نیشنل الیکٹرانک ہیتھ ریکارڈ پلیٹ فارم قائم کریں کیونکہ دنیا بھر کے دیگر ممالک نے اپنے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو ہموار کرنا شروع کر دیا ہے۔ علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا پلیٹ فارم تیار ہو جائے تو مریض کی تمام متعلقہ معلومات ان کا قومی شناختی نمبر درج کر کے حاصل کی جا سکیں گی۔ انہوں نے اس پلیٹ فارم کو صحت کے شعبے میں گیم چینجر قرار دیا۔