کراچی کے قلمکاروں کومہاجرنہیں اپناسمجھیں!!!

آپ کو اگر اپنے ہی گھر میں اجنبی بنادیا جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے ؟یقیناً یہ ایک دل دکھادینے والا عمل ہے اور دل کو دکھائے جانے کی اسی کیفیت سے آج کل کراچی کے قلم کار گذر رہے ہیں جنہیں ان کے اپنے ہی شہر میں اجنبی بنادیاگیا ہے ۔نام نہاد ادبی ٹھیکیداروں کے اسی رویے کے باعث یہ وقت آگیا ہے کہ اگر آپ کراچی میں کوئی مشاعرہ منعقد کرتے ہیں تو آپ کی سب سے بڑی الجھن یہ ہوتی ہے کہ اس مشاعرے کی صدارت کون کرے گا ؟کیونکہ جون ایلیا ،عبید اللہ علیم ،استاد قمر جلالوی اور ان ایسے بڑے ناموں کے شہر میں ہمارے پاس صدارت کے لیے صرف دو شاعر جناب انور شعور اور جناب ڈاکٹرپیرزادہ قاسم ہی باقی رہ گئے ہیں اور اگر یہ دو حضرات کسی مشاعرے کی صدارت سے انکارکردیں تو ہماری تلاش کا عمل شروع ہوجاتا ہے ۔اس زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ادبی اداروں نے یہاں کے مقامی قلمکاروں کو اجنبی بنادیا ہے اور شہر میں ہونے والے چھوٹے سے بڑے مشاعروں تک ان کی نظریں شہر سے باہر دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔اس طرح کا رویہ سمجھ سے بالکل بالاتر ہے ۔کیا کراچی میں اچھا شعر کہنے والے شاعر نایاب ہوگئے ہیں َ یا پھر سرمایہ دارانہ سوچ کے حامل ان ادبی ٹھیکیداروں کی آنکھوں میں پردہ پڑگیا ہے کہ وہ کراچی کے قلمکاروں کو ان کے اپنے ہی شہر میں نظرانداز کررہے ہیں ۔آئندہ ماہ ہونے والے عالمی مشاعرے کی بات کی جائے یاعالمی اردوکانفرنس کی شہرقائدکے لکھنے والو ں کو بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے ۔کراچی آرٹس کونسل کی تقریبات میں پذیرائی بیرون شہر سے آئے ہوئے قلمکاروں کو ہی ملتی ہے ۔

پانی اب سر سے اونچا ہوتا جارہا ہے ۔اس کے لیے شہر قائد کے سنجیدہ ادبی حلقوں کو آگے آنا چاہیے اور کراچی کے نظرانداز ادیبوں کی آواز بننی چاہیے ۔میں اس حوالے سے پہلی آواز بلندکررہا ہوں ۔یہاں سوال یہ ہے کہ عالمی مشاعرہ وہ کانفرنس کمیٹی کراچی کے لکھنے والوں کو اتنا غیر اہم کیوں لیتے ہیں سمجھ میں صرف یہ ہی آتاہے کہ یہاں اچھی تحریر سے زیادہ خوشامدی ٹولے شہرقائدکے ادبی منظرنامے پرراج کررہے ہیں چاہے وہ کتناہی غیرمعیاری لکھتے ہوں۔کراچی کے قلمکاروں کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم اب وقت کی ضرورت بنتا جارہا ہے ۔اس حوالے سے کراچی لٹریچر فورم کے قیام کے لیے میں اپنی کاوشوں کا آغاز کردیا ہے اور ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کراچی کے ادیبوں کو ان کا جائز مقام دیا جائے ۔ہم ہر پلیٹ فارم پر کراچی کے قلمکاروںکے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اجاگر کریںگے ۔میں کراچی کے تمام قلمکاروں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ میری اس تحریک کاحصہ بنیں ۔وگرنہ ان کے لیے میں حضرت قتل شفائی کا یہ شعر بطور ہدیہ پیش کروںگا

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

عمیر علی انجم