*ماں کی بد دعا*

*ماں کی بد دعا*

ویسے تو میری ساری زندگی ہی لوگوں سے اُن کی زندگی کے قصے اور کہانیاں سنتے گزری ہے مگر جو قصہ مجھے کبھی نا بھول پائے گا ایک ایسے شخص کا ہے جو میرے پاس بہت ہی دل شکستہ و دل گرفتہ آیا، کہنے لگا؛ میری گھریلو زندگی برباد ہو گئی ہے، نا پہلی بیوی سے بن پائی اور نا اب دوسری بیوی سے نباہ ہو رہا ہے، میرے بچے میرا احترام نہیں کرتے، گھر میں میری کوئی قدر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے بچوں کو بالکل ایسے ہی کھو چکا ہوں جیسے میرے سارے کاروباری پروجیکٹس گھاٹوں کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں، لگتا ہے اب اس دُنیا کا ہر دروازہ میرے منہ پر بند ہوتا جا رہا ہے، زندگی کی اب کوئی ایسی راہ باقی نہیں رہی جو میرے لئے کھلی رہ گئی ہو۔

میں نے اُس سے کئی سوالات کرنا چاہے تاکہ پتہ چلا سکوں کہ اُس کی ان ساری ناکامیوں کے پیچھے کیا اسباب ہیں مگر اس شخص پر اتنی مایوسی طاری تھی کہ وہ میری کسی بات کا سیدھا جواب ہی نہیں دے پاتا تھا۔ پھر اچانک اُس نے میری باتوں کو کاٹتے ہوئے خود ہی کہا؛ میں آپ کا وقت بچانا چاہتا ہوں اور مختصراً بتائے دیتا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ میری ان ساری ناکامیوں کا سبب میری ماں کی بد دعائیں ہیں۔ میں ہمیشہ اُس کی ہر بات کو ٹالتا ٹھکراتا اور نا فرمانی کیا کرتا تھا، اُس کا احترام تو بالکل ہی نہیں کرتا تھا بلکہ کبھی کبھی اُس پر ہاتھ بھی اُٹھاتا تھا۔ بیوی کو ہمیشہ ماں پر ترجیح دیتا تھا۔ میری ماں کو ویسے تو چپ سی لگی ہوئی تھی مگر میں جب بھی گھر آتا تو ایسے لگتا جیسے وہ زیر لب کچھ بڑبڑا رہی ہو۔ اب مجھے سمجھ آتی ہے کہ اُس کا بڑبڑانا در اصل مجھے بد دعائیں دینا ہوتا تھا۔ بس جان لیجیئے کہ میری ساری مشکلات کو واحد سبب بس یہی ہے۔

میں نے کہا؛ بات تو تیری بالکل ٹھیک ہے کہ وہ واحد گناہ جس کی سزا دینے کی جلدی اسی دنیا میں ہی کی جاتی ہے وہ ماں باپ کی نافرمانی ہے۔ لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، میں تو بس یہی کہتا ہوں کہ فورا جا کر اپنی ماں سے معافی مانگ لو، بس ایک بار اس کے پاؤں پڑو گے اور اس کے سر پر پیار کرو گے تو اُس نے تیری ساری کوتاہیاں بھول کر تجھے گلے لگا لینا ہے۔ میری یہ بات سُن کر اس شخص کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے ، روتے ہوئے کہنے لگا؛ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ تو مر چکی ہے۔ میری اس سے بڑی بد نصیبی یہ بھی رہی کہ میں نے اس کے جنازے میں بھی شرکت کرنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔

موقعے کی مناسبت سے آپ کو اپنے ایک عزیز دوست کا قصہ سناتا چلوں؛ یہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا، اس کا ایک بہت ہی چھوٹا سا کاروبار تھا مگر صاف ستھرا گھر ، راضی بازی گھر والی اور سکول پڑھتے پیارے بچے۔ میں نے ایک بار اُس سے اُس کی خوشیوں کا راز اور کامیابی کے اسباب پوچھے تو کہنے لگا یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ کہتا ہے میں جب میری ماں حیات تھی اور گھر جاتا تو جاتے ہی اپنی ماں کے سر پر بوسہ دیتا، وہ مجھے دعا دیتی اللہ تیرے سر کو ہمیشہ بُلند رکھے۔ بس یہی سبب ہے کہ میں اس دعا کے طفیل آج برکتوں کے میلے میں گھرا رہتا ہوں۔ میں ایک ایسے کاروباری شخص کو بھی جانتا ہوں جو اس دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ اُس نے ایک دن خود مجھے بتایا تھا میری ساری ترقی اور مال و دولت کے پیچھے میری والدین سے محبت و عقیدت ، اُن کی رضا اور دعائیں ہیں۔

یہ ایسے قصے ہیں جنہیں میں کبھی بھی نہیں بھلا پاتا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کئی والدین کی اُن کی اولاد کے ساتھ ناراضگی اور اُن کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات اور بد دعاؤں کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ جیسے ایک بار میں جہاز پر سفر میں تھا۔ مجھ سے چند نشستوں کے فاصلے پر بیٹھی ایک ماں اپنے ایک ایسے بچے کو کوسنے دے رہی تھی جس کی عمر بمشکل چار سال بھی نہیں تھی۔ اُس کے کوسنے اس نوعیت کے تھے کہ میرا دل ڈوبنے لگا، مجھے لگا کہ آج تو یہ جہاز گرے ہی گرے۔ میں بھاگ کر اس ماں کے پاس گیا اور اُسے نہایت شفقت سے سمجھاتے ہوئے کہا؛ بہن یہ تو کیسی باتیں کر رہی ہے؟ کیا تجھے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول مبارک یاد نہیں ہے کہ تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک ہی نہیں؛ مظلوم کی بددعا ، مسافر کی دعا ، اور والد کی دعا اولاد کے حق میں۔

پس یہ بات تو طے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں واضح موقف موجود ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ہمیشہ خیر کی دعا دیں نا کہ اُن کی بربادی اور برائی کے درپیش رہیں۔ ایک اور حدیث مبارک کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ: اپنی ذات پر اوراپنی اولاد پراوراپنے مال پر بد دعا مت کرو ،اللہ کی طرف سے ایسی گھڑی نہ آجائے جس میں کسی نوازش کا سوال ہو اور تمھارے حق میں قبول ہو جائے۔

والدین کیلئے اپنے غصے پر قابو رکھنا اور خاص طور پر غصے کے دوران اپنے الفاظ پر قابو رکھنا بہت ضروری چیز ہے۔ ہو سکتا ہے ایسے لمحات میں اُن کے منہ سے نکلے الفاظ اُن کی اولاد کی زندگیوں کو برباد کر دیں۔ کویت میں چند قصے بہت مشہور ہیں اور ہر زبان پر زد عام رہتے ہیں، اں میں سے ایک قصہ یہ بھی ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے پر ناراض ہوئی تو اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا جا تجھے اللہ کبھی بھی بیٹے نا دے۔ اللہ پاک کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس کی یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور وہ بیٹے کے رزق سے ہمیشہ محروم رہا۔

اولاد سے غصے کے وقت بد دعاؤں اور کوسنوں کے بھی کئی متبادل ہیں۔ ہم اُن کیلئے یوں کہہ دیا کریں؛ اے اللہ میرے ان بچوں کو ہدایت دیدے، ان کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور راحت بنا دے، میری مدد فرما کہ میں ان کی اچھی اور بہتر تربیت کر سکوں، ان کو عزت دار بنا، ان کا اخلاق اچھا بنا دے، ان کو نیک اور صالح دوستوں کی صحبت عطا فرما دے، ان کو قرآن کا حافظ بنا دے، ان کو بری صحبت سے محفوظ رکھیو، ان کے سینوں کو کھول دے ، ان کے سارے کاموں کو آسان بنا دے، ان کو ہدایت دیئے رکھنا، شیطان کے مکر و فریب سے پناہ میں رکھنا۔ یا اللہ میرے بچوں کو مؤمنین، صالحین، تائبین، قانتین، عابدین، طائعین میں سے بنا دے، انہیں اپنے دین کا خدمت گزار بنا دے۔ اے اللہ ان کا اخلاق اچھا ہو، ان کی عبادت مقبول ہو، ان کی زندگی خوشیوں سے بھر پور ہو، ان پر حلال رزق کی فراوانی ہو، حرام سے محفوظ رہیں، تیرے سوا کسی کے محتاج نا ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔

میں نے ایک بار ایک ماں کو ایسی خوبصورت دعا کرتے ہوئے بھی سنا؛ کہہ رہی تھی: اے اللہ میرے بچوں کو ایسا بنا دے کہ ان میں سیدنا یوسف علیہ السلام کا حسن جھلکتا ہو، لقمان جیسے دانائی ہو، سیدنا ایوب علیہ السلام جیسا صبر ہو اور ہمارےپیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اخلاق پایا جاتا ہو۔

میں نے تفسیر ابن کثیر میں یہ بھی پڑھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے لطف اور تحمل کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ ان کی وہ بد دعائیں، جو انہوں نے ایسے وقت میں، اپنے آپ پر کی ہوں یا اپنے مال مویشی پر یا اپنی آل اولاد پر، جب کہ وہ پراگندہ ذہن اور غصے کی حالت میں تھے اور اُن کا دلی مقصد ایسی ایذا اور نقصان مقصود نہیں تھا قبول نہیں فرماتا۔ اللہ تبارک و تعالٰی وہ دعائیں یا بد دعائین قبول فرماتے ہیں جو ان کی رضا اور سکون کی حالت میں مانگی ہوں۔ یہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر بہت ہی لطف اور احسان ہے۔ یہ باتیں مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تفسیر سے لی گئی ہیں: اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں (سورة يونس – 11)

اللہ پاک ہماری اولاد کی بہتری فرمائیں اور ہمیں اس فریضے سے سبکدوش ہونے میں مدد فرما دیں۔ آمین

مندرجہ بالا مضمون ڈاکٹر جاسم الکویتی کا مقالہ کا ترجمہ ہے جو ایک عربی اخبار میں چھپا تھا۔
🌻🌹اچھی بات 🌹🌻