آسیہ بی بی کی بریت: حکومت اور تحریکِ لبیک کے درمیان معاہدہ طے پا گیا، دھرنا ختم

اس پانچ نکاتی معاہدے کے بعد تحریکِ لبیک پاکستان ملک بھر میں اپنے احتجاج کو ختم کر دے گی۔ 

اس پانچ نکاتی معاہدے کے بعد تحریکِ لبیک پاکستان ملک بھر میں اپنے احتجاج کو ختم کر دے گی۔

تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے گا اور آسیہ بی بی کے مقدمے میں نظر ثانی کی اپیل پر حکومت اعتراض نہیں کرے گی۔

اس پانچ نکاتی معاہدے کے بعد پہلے تو معاہدے کی تصدیق کرنے کے بجائے تحریکِ لبیک پاکستان نے یہ کہا کہ اجلاس ابھی جاری ہے اور پھر اس کے بعد ایک خطاب کے ذریعے ملک بھر میں اپنے احتجاج اور دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

معاہدے کے مطابق آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف مظاہروں میں اگر کوئی ہلاکتیں ہوئی ہیں تو ان کے بارے میں فوری قانونی کارروائی کی جائے گی۔

 

آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف 30 اکتوبر اور اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوئی ہیں اُن افراد کو فوری رہا کیا جائے گا۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کے دوران جس کسی کی بلاجواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے۔

معاہدے پر وفاقی وزیر برائے مذہبی امور صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری، صوبائی وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت، سرپرست اعلیٰ تحریک لبیک پیر محمد افضل قادری اور مرکزی ناظم اعلیٰ تحریک لبیک محمد وحید نور نے دستخط کیے ہیں۔

توہینِ رسالت کے الزام میں سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے بریت کے فیصلے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جمعے کو تیسرے روز بھی جاری رہا۔

اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی متعدد شاہراوں پر مظاہرین نے ٹریفک کو معطل کیے رکھا اور متعدد مقامات پر توڑ پھوڑ کی اطلاعات بھی ملی تاہم بڑے پیمانے پر فسادات کی خبریں سامنے نہیں آئیں۔ جمعے کی صبح آٹھ بجے سے شام تک ملک کے چار شہروں اسلام آباد، لاہور، گوجرانوالا اور راولپنڈی میں موبائل سروس دستیاب نہیں تھی۔

تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی ترجمان اعجاز اشرفی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت کے دو مرکزی مطالبات ہیں کہ آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ دینے والے تینوں ججز استعفیٰ دیں اور ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا فیصلہ واپس لیا جائے کیونکہ یہ ‘قرآن اور پاکستانی آئین کے خلاف’ ہے۔

اعجاز اشرفی نے مزید کہا کہ ‘حکومت اور مقتدر ادارے غیر ذمےدارانہ گفتگو کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔’

اس سے قبل آسیہ بی بی کی بریت کے بعد ہونے والے مظاہروں پر پہلی بار رد عمل دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ‘حکومت کے پاس فیصلے کرنے کے مختلف آپشنز ہوتے ہیں اور پہلے پولیس، رینجرز اور پھر فوج کے استعمال کا فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ اور اگر حکومت فوج بلانے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر فوج کے سربراہ اس پر وزیر اعظم کو اپنا مشورہ دیتے ہیں یا اگر وزیر اعظم اپنے حکم کے تحت فوج کو طلب کر سکتے ہیں۔ البتہ ہماری پوری خواہش ہے کہ قانونی تقاضہ پہلے پورے ہونے دیں۔’

سرکاری ٹی وی پر بات چیت کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواج پاکستان کے خلاف بات کرنا نہایت افسوسناک عمل ہے۔ ‘فوج نے دو دہائیوں سے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور اب ہم اس جنگ کو جیتنے کے قریب ہیں۔’

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج اپنا کام کر رہی ہے اور اپنے خلاف ہونے والی باتیں برداشت کیے جا رہی ہے۔ ‘اس میں بھی فوج نے برداشت کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کیس میں تعلق نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری خواہش ہے کہ انصاف کیا جائے اور ہمیں ایسا کوئی قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے جس کی ہمیں آئین اور قانون اجازت دیتا ہے۔’

میجر جنرل آصف غفور کا مزید کہنا تھا کہ’میں نے مولانا خادم رضوی صاحب کا بیان دیکھا ہے، فوج کے خلاف باتیں ہوئی ہیں۔ ایک صورتحال بنی ہوئی ہے جس کو حل کرنے کے لیے حکومت کا وفد گیا ہوا ہے جس میں آئی ایس آئی کا افسر بھی شامل ہے۔ آئی ایس آئی کا افسر وزیر اعظم کی ٹیم کا حصہ ہوتا ہے اور گذشتہ سال کی طرح بھی وہ اس بار گئے ہیں۔’

آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ‘مذاکرات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کبھی کبھار اونچ نیچ ہو جاتی ہے اور اس قسم کے فیصلے لینے بہت مشکل ہوتے ہیں اور ہمیں اس صورتحال کو قابو میں کرنا ہوتا ہے۔’

میجر جنرل آصف غفور کے مطابق یہ مذاکرات حکومت کی سطح پر ہو رہے ہیں اور اس میں حکومت کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ بات چیت کرنا چاہے، اور آگے کیسے جائے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ حکومتی وفد جمعے کو بھی تحریک لبیک پاکستان کی قیادت سے ملاقات کرے گا۔ یاد رہے جمعرات کی شب ٹی ایل پی کے سربراہ خادم حسین رضوی کی جانب سے ٹویٹ کی گئی تھی کہ حکومت سے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں اور آئی ایس آئی کے افسر نے انھیں ‘بھون’ دینے کی دھمکی دی تھی۔